mian muhammad bakhsh
mian muhammad bakhsh 

  عارف کھڑی حضرت میاں محمد بخش


عارف کامل ، شاعر اکمل، عالم با عمل، حضرت میاں محمد بخش رحمتہ اللہ علیہ جنہیں "عارف کھڑی شریف" کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ پنجابی زبان کے ان شعراء میں شامل ہیں جن کو لیجنڈ اور کلاسیک کا درجہ حاصل ہے۔ حضرت میاں محمد بخش قدس سرہ العزیز کا آفاق کلام دلوں پر براہ راست اثر انداز ہوتا ہے آپ کے مختصر حالات زندگی پیش خدمت ہیں۔ حضرت میاں محمد بخش رحمتہ اللہ علیہ 1246 ہجری بمطابق 1830ء کو کھٹڑی شریف آزاد کشمیر میں پیدا ہوئے جبکہ آپ کی تاریخ وفات 1907 ء ہے آپ نے جذب دستی اور روحانیت پر 14 کتابیں تحریر کیں جن میں سے سیف الملوک کو عالمگیر شہرت حاصل ہوئی آج بھی میاں محمد بخش رحمتہ اللہ علیہ کا کلام جو اشعار کی صورت میں ہے بابا بلھے شاہ رحمتہ اللہ علیہ بابا فرید رحمۃ اللہ علی اور دیگر اولیاء کرام کی طرح پوری دنیا میں جہاں جہاں پنجابی بولنے والے لوگ موجود ہیں ان میں عقیدت واحترام کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔ جو پذیرائی حضرت میاں محمد بخش رحمتہ اللہ علیہ کے کلام کو حامل ہے وہ کم شعراء کے حصے میں آتی ہے۔

  حضرت میاں محمد بخش رحمتہ اللہ علیہ کا کلام تصوف دروحانیت کے نکات سے بھی مملو ہے اور بہت سے ایسے اشعار ہیں جو ہمارے معاشرہ میں ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ آپ کا کلام پوری دنیا میں ذوق و شوق سے پڑھا اور نا جاتا ہے۔


سلسلہ نسب


حضرت میاں محمد بخش رحمتہ اللہ علیہ خلیفہ دوم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی اولاد سے ہیں آپ کے والد گرامی میاں شمس الدین واقف راز حقیقت شہباز اوج طریقت حضرت پیران پیر پیراں شاہ غازی قلندر المعروف دمڑی والی سرکار کے دربار سجادہ نشین تھے آپ کے والد گرامی حضرت بابا دین محمد رحمتہ اللہ علیہ کو حضرت دمڑی والی سرکار رحمتہ اللہ علیہ نے حقیقی اولاد کی طرح اور روحانیت کے کمالات عطا فرمائے تھے۔

mian muhammad bakhsh
mian muhammad bakhsh 

آپ کی ابتدائی زندگی اور بیعت حضرت میاں محمد بخش رحمتہ اللہ علیہ نے تحصیل علم کے لئے دور دراز مقامات کا سفر کیا اور اس وقت کے مشہور مشائخ سے ملاقات و کسب فیض کیا آپ نے بہت سے مزارات پر حاضری دی اور مراقبہ میں اولیائے کاملین سے ملاقات کی۔ پیر کامل حضرت دمڑی والی سرکار رحمتہ اللہ علیہ نے آپ کو

 خواب میں ارشاد فرمایا کہ سائیں غلام محمد کلر وڑی میرا روحانی فرزند ہے اس سے ظاہری بیعت کر لو۔ شیخ کامل کے حکم پر شیخ احمد ولی کا شمیری کی خدمت میں حصول فیض کے لئے حاضر ہو گئے۔ آپ سلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت تھے اس لئے محبوب سبحانی، غوث محمدانی ، قطب ربانی حضرت عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ سے بہت محبت فرماتے تھے آپ فوٹ پیا کی محبت میں مستغرق تھے۔ حضرت دمڑی والی سرکار رحمتہ اللہ علیہ کے روضہ اقدس پر حاضری معمولات میں شامل تھی اس لئے بعد نماز فجر وظائف سے فراغت یا کر قلندر صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے روضہ مبارک میں جا کر جاروپ


دستار سجادگی


حضرت میاں صاحب کے والد گرامی نے ایام علالت میں اطراف سے قرب و جوار کے رو سا اور علماء وغیرہ کو طلب فرمایا اور مجمع عام میں حاضرین سے خطاب کیا کہ انسان کی زندگی تا پائیدار ہے سفر آخرت در پیش ہے اس لئے مناسب ہے کہ اپنی موجودگی میں آپ لوگوں کے روبرو دستار سجادگی اور منصب خلافت دربار شریف اپنے فر محمد بخش کو دے جاؤں میرے خیال میں سیکی فرزند ہے جو اس بار گران کا متحمل ہو سکے گا جب آپ یہ کلمات فرما چکے تو ہر طرف سے بیانیہ کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں ۔

mian muhammad bakhsh
mian muhammad bakhsh 


 شاعرانہ ذوق


جب کسی محب کی طرف کوئی تحریر کرنی منظور ہوتی تو عموما منظوم ہی لکھا کرتے تھے۔ قاری ، اردو، پنجابی زبان میں بے تکلف اور جلدی اشعار لکھتے تھے۔ عربی زبان میں بھی آپ کی نظم اور نثر نہایت اعلیٰ پایہ کی ہوتی مگر کم اتفاق ہوتا تھا ۔ آپ کے اشعار ترانہ حقیقی کا نغمہ ہیں ۔ اہل دل کو ایک ایک مصرعہ پر وجد طاری ہو جا تا ہے ذرا توجہ کی تو بس ایک دریا ہے جو اٹھا چلا آ رہا ہے مسلسل سالما تعلم شروع ہو جایا کرتا ۔ کوئی کیسا ہی تیز نویس ہوتا اور آپ اس کو جب تازہ اشعار زبان مبارک سے بول کر لکھواتے تو وہ ہرگز برابری نہ کر سکتا تھا۔


آپ کے کلام میں روانگی اور صفائی کے علاوہ باریک سے باریک اسرار اور معارف جو اہل کمال صوفیائے کرام صاحب حال کے جذبات پر شاہد ہوں، پائے جاتے ہیں۔ ایک ایک لفظ جو درد دل سے نکلا ہے، سامعین کے خفتہ دلوں کو بیدار کرتا ہے


دنیا سے بے رغبتی


آپ تمام تعلقات دنیاوی کو چھوڑ کر کنارہ کش ہو گئے تھے ان دنوں عجیب ذوق وارفتگی کی حالت تھی ، مکلف لباس کی جگہ بدن پر کمیل تھا اور

 ساگ سبزی پر گزر اوقات تھی ۔ آپ نہایت قلیل غذا استعمال کرتے باوجود اس کے رُعب اور جلال چہرہ مبارک سے لپکتا تھا کہ بڑے بڑے حکام بھی روبرو آ کر مرعوب ہو جایا کرتے تھے، تمام عمر کسی راجہ یا امیر دنیا دار رئیس کی ملاقات کے واسطے ہرگز تشریف نہیں لے گئے ، والیان ریاست بھی آپ کے سلام کے واسطے حاضر خدمت ہوتے رہے۔


والی ریاست کا زیارت کیلئے تشریف لانا چنانچہ مہاراجہ صاحب حال والی ریاست جموں کشمیر بذات خود در بار شرف میں حضرت میاں محمد بخش رحمتہ اللہ علیہ سے سلام کے واسطے حاضر ہوئے اور نذرونیاز پیش کی ۔ ہمیشہ والی ریاست کی طرف سے جو نہ رو نیاز آتا، آپ اقراء ومساکین اور مستحقین میں تقسیم فرما دیتے۔ آپ کی تصانیف آپ کی تصانیف سے متعدد کتا ہیں مشہور ہیں۔ (1) قصہ سوہنی مہینوال (۲) محلہ میران (۳) کرامات غوث اعظم (۳) تو رسولی معجزات


(۵) تم شیخ صنعان (1) شیریں فرہاد


(۷) نیرنگ


(۸) عشق منی خاص خان

مرزا صاحباں


(۱۰) شاه منصور (11) ہدایت المسلمین (۱۲) گلزار فقر (۱۳) قصہ سیف الملوک و بدیع الجمال


(۳) تذکر مقیمی زیارت غوث پاک


آپ کی تمام تصانیف مقبول ہیں جب آپ نے در دول اور شوق و وجدان سے حضرت شیخ عبد القادر جیلانی غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی جناب میں رجوع لا کر سی حرفی تصنیف فرمائی تو اسی رات کو خواب میں حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی زیارت ہوئی اور آپ کو دربار خوشیہ میں برسرمستند ضلعت فاخرہ پہنائی گئی۔


آپ کا ترک طعام


ایک مرتبہ آپ نے اس طرح کا چلہ کیا کہ ہر قسم کا اناج کھانا بند کر دیا کوکن پیر کوٹ کر ایک تھیلی میں رکھ لئے ۔ شام کو روزہ اسی سے افطار کیا کرتے۔ ساگ وغیرہ کسی قسم کی سبزی ، نمک ، مرچ ڈال کر پکائی جاتی اور قدرے قند سیاہ استعمال کرتے ۔ اسی طرح سے پانچ سال گزر گئے آپ کا دان مبارک بالکل لاغر ہو گیا تھا۔۔


 وصال مبارک


ایک دن حسب معمول بعد نماز عصر آپ درود وظائف میں مشغول تھے جب آفتاب غروب ہو گیا اس وقت آپ نے بغرض ادائے نماز مغرب تازہ وضو کیا ۔ ایک خادم نے آگ جلائی ، موسم سرما تھا بعد وضو آگ کے قریب تشریف لا کر بیٹھ گئے۔


اسی وقت بدن مبارک میں کمزوری ہی ہو گئی جس سے آپ ایک طرف کو جھک گئے ۔ خادم در بار جو آگ جلا رہا تھا اس نے پشت مبارک پر ہاتھ رکھ کر دوسرے آدمی کو آواز دے کر بلایا۔ دونوں نے مل کر آپ کو چار پائی پر لٹا دیا اسی حالت میں دوسرے روز اس آفتاب حالتاب نے زریخ انور کو ہماری نظروں سے پوشیدہ کر لیا اور اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔


إنا لله وإنا إلَيْهِ رَاجِعُونَ خدا رخت کند این عاشقان پاک طینت


میاں محمد بخش پیارے راہ عرفان دا دنیا ایسے جوڑے شعر پیارے ہر اک دا دل کھیا